محمود اعوان کی نئی چھپی کتاب کی تقریب رونمائی
22 اکتوبر کی شام پنجاب انسٹیوٹ آرٹ، لٹریچر انیڈ لیگوئج (پلاک) میں محمود اعوان کی نئی چھپی کتاب’سیجل‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدرات مشہور دانش ور اور شاعر مشتاق صوفی نے کی۔ اس پروگرام کے لئے اسٹیج سیکڑیری کے فرایض مشہور شاعر افضل شاعر نے ادا کئے۔ سبھ سے پہلے اوہنوں نے کتاب کی پشت پر چھپے امر جیت چندن کا لکھا ہوا فلیپ پڑھا۔ چندن پنجابی کے نامور شاعر اور نثرنگار ہیں اور لندن میں قیام پیذیر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ ”خوشاب کی وادی سُون سکیسر کے گاؤں پدھراڑ کے جم پَل محمود اعوان کی شاعری مغربی پنجاب کی سرزمین،تاریخ اس کی زبان کا مرقع ہے۔اس ورثے کے مالی ہمارے بزرگ پیلو اور حافظ برخودار ہیں اور باغ کے پکھووں کی اعوان کاری،شاہ پوری، جانگلی، دھن پوٹھوہاری اور چھاچھی میں بولی گی آوازیں محمود کی ان نظموں میں سُنتی ہیں۔
اس کی کئی نظموں میں کوئی سپ ہے جو پنجاب کی دھرتی پر بھوگ کرتا پھردا ہے۔یہ سپ اس کی رومانٹک شاعری میں بھی ہے جو دھرتی اور جسم کے وجوگ اور تاریخ کو جوڑتا ہے۔
بابے نانک نے نیک بندوں کو اُجڑ جان کی دُعا کی تھی تاں کہ نیکی کا پسارا ہو۔ کئی شہر، مَلک گاہ کر اب پدھراڑوں ست سمندر پار رہتے محمود کی،پردیسی کامے اور شاعر کی کمائی ہوئی یہ نیک کھٹی ہے۔ماں بولی کی جھولی میں پایا نذرانہ۔“
امرجیت چندن کے ان خوبصورت الفاظ کے ساتھ سب سے پہلے رائے ناصر خان کھرل نے اپنی بات کا آغاز کیا۔ اوہنوں نے محمود کی شاعری کو خوب سلاہا اور اس کتاب کو پنجابی شاعری میں اک نیا اضافہ قرار دیا۔اوہنوں نے شاعر کو پنجابی کا اک انمول شاعر قرار دیا۔ نین سُکھ نے زبانی محمودکی نظمیں پڑھ کر سب کو حران کر دیا۔ اپنی بات کا آغاز اوہنوں نے اس سطروں سے کیا۔
”میں سڑکیں کھڑیا موتیا
میں کنکیں سُتی بُھکھ
میں بھاگ بھری دا بالکا
میرے دھیاں ورگے دُکھ“
اوہنوں نے خاص کر اُن کی محبت کی نظموں کو صلاہا اور سانپ کے استعارے کو زبردست شاعری کہا۔ اوہنوں نے محمود کی محبت کی شاعری کو خالص محبت کی شاعری کہا اور پنجابی کی محبت۔ زبیر احمد نے شاعر کا تعارف کرایا اور اپنے طویل رفاقت کا ذکر کیا جو شاعر بنے سے لے کر موجودہ کتاب تک کا ہے۔ محمود کی پہلی کتاب ’رات،سمندر، کھیڈ‘2002، وینی لکھیا دِن2012، میں چھپی تھی۔زبیر احمد نے کتاب میں سے کچھ نظموں کا حوالہ دے کر بتایا کہ شاعر کس طرح محبت کی نظموں کے ساتھ ساتھ ایک پورا جہان لے کر آتا ہے۔اس طرح اُس کی نظمیں پورے معاشرے کا احاطہ کرتی ہیں اور اس میں درخت،پرندے، موسم،دھرتی کے سارے رنگ سماجاتے ہیں۔ پر اس ساری کہانی کا مرکز محبت اور پیار کا رشتہ ہے۔ اس کے بعد راجہ صادق اللہ نے بات کی۔ اوہنوں نے زبیر احمد کی تعریف کی جو پردیس میں بسنے والے شاعروں اور لکھاریوں کو ملاتے ہیں اور گھر میں بُلا کر دعوتیں دیتے ہیں۔ محمود کی شاعری کی اوہنوں نے تعریف کی پردیس کے دوسرے شاعروں کی طرح جس میں امرجیت چندن،مظہر ترمذی،عرفان ملک جیسے شاعرشامل ہیں۔ اس کے بعد محمود نے اپنی شاعری سُنائی۔ جس کو بہت صلاحا گیا۔ صاحب صدر مشتاق صوفی نے لکھیار اور قاری کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کا ذکر کیا۔ اور میاں محمد کے ایک شعر کا حوالہ دیا۔ ’مرمر اک بناون شیشہ،مار وٹا اک بھندے/دُنیا اُتے تھوڑے ہوندے قدر شناس سُخن دے‘۔
اوہنوں نے کہا میں نے شاعری چھوڑ دی ہے پر محمود کی شاعری پڑھ کر پھر سے شاعری کرنے کو دل کرتا اے۔اوہنوں نے محمود کو شاندار شاعر قرار دیا۔
اس کے ساتھ یہ تقریب اختتام پیذیر ہوئی۔